تحریر۔نظام الدین
ڈیجیٹل میڈیا کے سرمایہ داروں، سیاستدانوں، حکمرانوں اور “سسٹم مافیا” کے گٹھ جوڑ کی خبریں لوگوں میں تجسّس پیدا تو کرتی ہیں لیکن حقیقت اگثر سنسنی خیز سرخیوں کے نیچے دب جاتی ہیں جیسے چار فروری 2025 کو ایک نوٹیفکیشن کے زریعے چیف سیکرٹری سندھ آصف حیدر شاہ نے اسسٹنٹ کمشنر سب ڈویژن گلشن اقبال عبدلرحیم شیخ کو معطل کردیا یہ ایک معمول کی خبر تھی ؟؟
مگر اصل خبر کیا ہے ؟؟ اس ضمن میں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اگر ہم خبروں کو درست اور متوازن انداز میں پیش کریں تو لوگ سچائی کو بہتر انداز مین سمجھ سکیں گے ،خبر کی سرخی کو سنسنی خیز انداز میں مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کرنا بالآخر حقیقت کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے ،،
اسسٹنٹ کمشنر کو معطل کیاگیا بنا اسٹیمپ کے دوکانداروں کو چالان دینے ہر یہ کوئی ایسی غیر قانونی بات نہیں تھی جس پر معطل جیسی کارروائی عمل میں لائی گئی ؟؟ “زرائع” تو یہ بتاتے ہیں کہ اسسٹنٹ کمشنر کو یہ سزا سرکاری اداروں میں سسٹم چلانے والی مافیا نے دلائی ؟؟ اگر ہم انٹرنیٹ یا اخبارات میں مافیا سے متعلق معلومات ڈھونڈنا چاہیں تو ہزاروں صفحات پر مشتمل مواد مل جائے گا، مگر یہ سسٹم کی مافیا کیا ہے ؟؟
سندھ سرکار میں سسٹم چلانے والی مافیاز کی داستان جہاں ناقابلِ یقین ہے وہاں نہایت سبق آموز بھی ہے، اگر ہم ذرا گہرائی میں جاکر سسٹم کی مافیاز کو دیکھیں تو یہ سندھ حکومت کی معاشیات، سیاست اور حکومت کے کام کرنے کے طریقوں سے متعلق رائے کو یکسر بدلنے کی طاقت رکھتی ہے ، ویسے تو مافیا کی ٹرم پاکستان میں اس وقت مشہور ہوئی جب اس کو میاں نواز شریف کے حوالے سے سپریم کورٹ کے ججز نے استعمال کیا، اور پھر اس مافیا کا دائرہ اتنا وسیع ہوتا گیا کہ وہ
سپریم کورٹ کے حکم پر گلشن اقبال ریلوے اراضی پر گرائی گئی زیر تعمیر کثیر المنزلہ عمارت تجوری ہائٹس ٹاور کی اراضی کو سسٹم چلانے والی مافیا کے حوالے کرنے والے کاغذات پر اسسٹنٹ کمشنر گلشن اقبال کے دستخط نہ کرنے پر اس سسٹم کی مافیا نے اسے معطل کرادیا ،،
یاد رہے یہ وہ تجوری ہائٹس ہے جسے کچھ سال پہلے سپریم کورٹ نے گرانے کا حکم دیا تھا سپریم کورٹ کی بنچ نے اس اراضی کا مشاہدہ تجوری ہائٹس کے وکیل کی درخواست پر کیا تھا اور پھر فیصلہ دیا تھا کہ اس زمین پر تعمیرات غیر قانونی ہیں، کیونکہ عدالت میں پیش کیے گئے دستاویزات میں ہیرا پھیری کی گئی تھی اور اس سے متعلقہ زمین پر بلڈرز کی ملکیت ثابت نہیں ہو سکی تھی۔
بعد ازاں کمشنر کراچی نے عدالت کو بتایا تھا کہ تجوری ہائٹس مسمار کردی گئی ہے ،
میری یادداشت کے مطابق جب میں نے ہوش سنبھالا تو کراچی میں کوئی مافیاز نہیں تھی کیونکہ انگریز کے دَور سے کسی حد تک سرکاری نظم و نسق میں سسٹم چلا آرہا تھا مگر جب حکومتیں دور اندیشی سے اپنا ایک روڈ میپ نہ بنا سکیں اور قانون کا نفاذ سب کیلئے یکساں نہیں رہا ۔ جب سرکاری افسر، اثر و رسوخ اور مال و دولت کےلالچ کاشکار ہوتے گئے اداروں کے اندر کلرک اور افسر ایک دوسرے کی مدد کرنے لگے پھر وقت آتا ہے کہ بعض محکمے خود مافیا بن گئے ریاست کے اندر ریاست جنم لیتی گئی، عوام اور حکمرانوں کے درمیان خلیج بڑھتی گئی ،، اور جہاں بھی کسی کو کوئی سنہری موقع ملا وہاں مافیاز از خود وجود پاتی چلی گئی ،
ویسے تو مافیا کا جنم اٹلی میں ہؤا ، جب انیسویں صدی میں جرائم پیشہ لوگوں نے اسے خفیہ طور پر قائم کیا۔ یورپی ممالک کی مافیاز کے درمیان ڈپلومیٹک رابطے ہوئے۔ بیسویں صدی میں ایک دوسرے کی خوب مدد کی۔ پہلے یہ لازمی تھا کہ مافیا کا کوئی رکن اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرے گا۔ اس لیے سازشوں کی منصوبہ بندی، بڑی دعوتوں میں کی جاتی تھی۔ یا پھر بڑی شادیوں میں جہاں مختلف جرائم پیشہ تنظیموں کے سربراہوں کو ایک دوسرے سے ملنے کا موقع مل جاتا تھا۔ ایک دوسرے کا احترام لازم تھا ، منشیات، اسلحے کی اسمگلنگ، منی لانڈرنگ، پولیس سے گٹھ جوڑ، بڑے بڑے پولیس افسر بھی مافیا کے خفیہ رکن ہوتے گئے بے ایمانی کے سارے کام بہت ایمانداری سے انجام دیے جاتے رہے ، مختلف مافیاز نے اپنے آئین، اپنے قوانین طے کیے ہوئے تھے ۔ ریاست پاکستان میں جب ایک نئے سسٹم کی مافیا نے جنم لیا تو ملک گیر سطح پر صوبائی اور شہری طور پر اپنے مفادات اپنے اصول طے کر لیے ایسا کیوں ہوا ؟؟ جب ریاست لوگوں کو ٹیکسوں کے عوض پینے کا پانی، ٹرانسپورٹ، رہائش، ملازمت، تعلیم، صحت، انصاف اور تحفظ دینے میں کمزور پڑتی گئی ۔ یا اسے اپنی زمہ داری نہیں سمجھا ۔ تو یہ خلا پُر کیا ، جنہیں عرف عام میں لینڈ مافیا، واٹر مافیا، ٹینکر مافیا، ہائر ایجوکیشن مافیا، پیٹرول مافیا اور اب ان سب کو سسٹم کی مافیا ، کہا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ جب سرکاری محکمے نا اہل ہو جائیں تو ان مافیاز کے خلاف بغاوت ہوتی ہے کیونکہ اس کے علاؤہ کوئی دوسرا راستہ عوام کے سامنے نہیں ہوتا ،،