رسولِ رحمت ﷺ

ترتیب
نظام الدین

“رب العالمین” پر ہم ایمان کیوں رکھتے ہیں ؟ کس دلیل سے ہم اس کے قائل ہیں ؟ تو اس کا جواب عقل سے نہیں “دل” سے دیا جاتا ہے !!! بس میرے “دل” نے کہا یہ خبر سنانے والا سچا ہے ، کیونکہ
محسن انسانیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر ہمیں دی ہے ، جن کو نبی ؤ رسول نہ مانے والے بھی ، سچا ، امانت دار ، صادق ، اور ، امین جیسے القاب سے نوازتے تھے، اور یہ ہی وجہ ہے آج بھی انسان کی سب سے بڑی تلاش “سچ” ہے۔ اس کرہ ارض پر ایک بھی ایسا انسان نہیں جو یہ چاہتا ہو کہ اس سے جھوٹ بولا جائے، ہر شخص سچ کا پیاسا اور متلاشی ہے سچائی ایسی صفت ہے جس کی اہمیت ہر مذہب اور ہر دور میں یکساں طور پر تسلیم کی گئی ہے اس کے بغیر انسانیت مکمل نہیں ہوتی ، یہ ہی وجہ ہے کہ جب دنیا کے بڑے بڑے انسانوں پر کتابین لکھیں گئی تو پہلے نمبر پر آپ رسول اللہ کو ہی رکھا گیا ، جبکہ
مذکورہ کتابوں کے مصنفین اللہ کے رسول کی سب سے پہلی خوبی کیا بیان کرتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں،اللہ کے رسول انسانی تاریخ کے سب سے سچے اور دیانتدار انسان تھے۔ دیانت سچ سے ہی جڑی ہوئی چیز ہے مگر وسیع المعنی ہے، کہ دیانت صرف قول کی ہی نہیں اشیاء اور امور میں بھی ہوتی ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ ایسی کتابوں کے مصنفین غیر مسلم ہیں۔اور دنیا کا سب سے عظیم ترین انسان انہوں نے اللہ کے رسول کو ہی قرار دیا ہے۔ گویا ان کے سچے ہونے کی گواہی محض گھر کی گواہی نہیں۔ بلکہ یہ وہی گواہی ہے جس کے پہلے گواہ بھی غیر مسلم یعنی مشرکین مکہ بنے تھے۔چنانچہ جب ہم سے کوئی پوچھتا ہے کہ آپ اللہ پر ایمان کیوں رکھتے ہیں ؟ آپ کے پاس کیا دلیل ہے تب” ہمارے “دل” کی گہرائی سے ایک ہی بات نکلتی ہے میں اللہ کے وجود کا اس لئے قائل ہوں کہ اس کے ہونے کی خبر اس شخص نے دی ہے جو انسانی تاریخ کا سب سے سچا انسان ہے۔ جس شخص کی پوری حیات میں ایک بھی جھوٹ وجود نہیں رکھتا پھر میں ان کی دی ہوئی خبر پر “دل” سے یقین کیوں نہ کروں ؟ یہ ایسا جواب ہے جسے قدیم ؤ جدید دونوں ادوار کا کوئی بھی زی شعور شخص غیر معقول نہیں کہہ سکتا۔ اگر ہم غور کریں تو بات وہی ہے کہ رب العالمین کے ہونے کی سب سے مضبوط دلیل انتہائی سادہ ہے۔ اس کے لئے کسی علم ؤ عقل کی ضرورت نہیں۔ اس سادہ وجہ کی جگہ فضول قسم کی مباحث میں پڑنا بس عقل کا زیادہ استعمال ہے اسی لئے کہتے ہیں عقل کو لگام ڈال کر رکھو ورنہ یہ وہ سفاک ہے جسے سب سے زیادہ مزہ اپنے ہی مالک کو تباہ کرنے میں آتا ہے۔ جبک “دل” کا معاملہ اس سے مختلف ہے ، اس کی سب سے بڑی خوبی بی یہ ہے کہ “متوازن” ہے۔ وہ درست کو درست اور غلط کو غلط کہنے کا مزاج رکھتا ہے۔اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یہ بلا دلیل بلکہ خلاف دلیل جا کر بھی درست کا ادراک کر لیتا ہے۔ اگر آپ غور کریں گے تو ایسے بہت سے مناظر ہماری حیات میں آجائیں گے جہاں کسی معاملے میں ساری عقلی دلیلوں کی خلاف ورزی کی اور ایسا کرنا باعث خیر ثابت ہوگیا۔
اب ذرا قرآن مجید کی ایک آیت دیکھیں جہاں عقل یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ کوئی مرنے کے بعد پھر زندہ ہوسکتا ہے۔ “دل” مان رہا ہے کہ ایسا ممکن ہے مگر دیکھنے کی ضد کر بیٹھا؟
(سورہ بقرہ۔ آیت260)
” کا ترجمہ:
اور جب ابراہیم نے کہا، میرے رب مجھے دکھایئے کہ آپ مردے کو زندہ کیسے کرتے ہیں ؟ اللہ نے کہا، کیا تم اس بات کا یقین نہیں رکھتے ؟ ابراہیم نے کہا بالکل یقین ہے، بس اپنا اطمینان قلب چاہتا ہوں۔
اس آیت میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ “دل” کی حتمی آرزو کیا ہے ؟ اس کی آرزو “اطمینان” ہے۔ اب اسی تناظر میں آپ عقل کو دیکھیں تو وہ اگر ؤ مگر کے چکر میں اطمینان کی بھی سب سے بڑی دشمن بنی ہوئی ہے ؟؟؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *