تحریر۔نظام الدین
سنہ 1979 میں جب کراچی یونیورسٹی پہنچا تو میرے دوست اطہر سعید مرحوم پہلے سے وہاں “ایل ایل بی” کی تعلیم حاصل کررہے تھے انہونے میرا داخلہ فارم ایک نومولود طلبہ تنظیم “اے پی ایم ایس او”
کے اسٹال سے بھر کر میرا داخلہ ایم اے صحافت میں ممکن بنایا، یہ الگ بات کہ راقم نے صحافت کو زریعہ معاش بنانے کے بجائے اسے صرف شوق تک محدود رکھا اور زریعہ معاش سرکاری ملازمت کو بنایا ،، یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان کے اردگرد کے خطے میں عجیب و غریب واقعات رونما ہو رہے تھے
پانچ جولائی 1977 کو جنرل ضیا الحق نے اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹّو کا تختہ اُلٹ کر ملک میں مارشل لا نافذ کر تو دیا تھا مگر شدید عوامی مزاحمت کو جب صحافیوں نے اجاگر کرنا شروع کیا تو فوجی حکومت کے لیے بہت سی پریشانیاں پیدا ہونا شروع ہوگئیں تب” اخبارات اور صحافیوں کو بے شمار پابندیوں اور مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ، پڑوسی ملک افغانستان میں شدید سیاسی عدم استحکام درپیش تھا جہاں 24 دسمبر 1979 کو روسی فوج نے مسلّح مداخلت کی تو
امریکہ نے افغانستان پر روسی فوج کشی کی شدید مخالفت شروع کردی اور وہاں موجود مزاحمتی گروہوں کو مالی اور جنگی امداد فراہم کی پاکستان ان امریکی عزائم کا مرکزی اسٹیج بنا جس نے ان افغان مزاحمتی گروہوں کو جنگی ساز و سامان اور فوجی تربیت کے ساتھ افرادی قوّت فراہم کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ پاکستان کا یہ فیصلہ جہاں امریکی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ بنا وہیں روسی حکام نے اسے مخالفت اور جانبداری سے تعبیر کیا۔ افغانستان میں روسی فوجی مداخلت کا پاکستان پر ایک اثر یہ بھی پڑا کہ قریباً 30 لاکھ افغان پناہ گزین سرحدی قبائلی علاقوں کے ذریعے کلاشنکوف اور ہیروئن لے کر پاکستان میں داخل ہوئے۔ اور خصوصی خیمہ بستیوں تک محدود رہنے کے بجائے پاکستان کے معاشی مرکز کراچی پہنچ گئے ، اس وقت خطے کے دیگر ممالک بھی سیاسی بھونچال کا شکار تھے۔11 فروری 1979 کو پاکستان کے پڑوسی ملک ایران میں آیت اللّہ روح اللّہ خمینی کی قیادت میں شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کا تختہ الٹا جا چکا تھا اور ایران ایک ’انقلاب‘ کے مرحلے سے گزر رہا تھا۔
20نومبر 1979 ہجری سال کی پہلی صبح ایک تنظیم اجماعہ السلفیہ المحسبہ کے چار سو کے قریب مسلحہ افراد نے خانہ کعبہ پر حملہ کرکے امام مہدی کے ظہور کا اعلان کردیا اور تقریباً ایک لاکھ حاجیوں کو مسجد الحرام میں محصور کردیا تھا یہ واقع اخبارات میں شائع ہوا تو اس کے منفی اثرات پاکستان پر بھی پڑھے اس شدید تلا طم کے باوجود کراچی میں امن و امان کی عمومی صورت حال نسبتاً مستحکم تھی ، کراچی اس وقت تک انتظامی طور پر محض تین اضلاع یعنی شرقی، غربی اور جنوبی اضلاع پر مشتمل تھا اور اب وسطی کہلانے والا پورا ضلع دراصل غربی ضلعے کا حصہ تھا۔
دو چار متمول علاقوں کے سوا کراچی شہر میں زیادہ تر درمیانے اور متوسط طبقے کی پرانی آبادیاں اور قدیم محلے قائم تھے۔ ان رہائشی بستیوں میں سب لوگ پورے پورے محلے کے ہر ہر فرد سے واقف ہوتے تھے اور پاس پڑوس سے بڑی ہی اپنائیت اور میل جول کا ماحول تھا۔ سادہ اور عام سی زندگی تھی، نہ ٹی وی چینلز تھے نہ انٹرنیٹ نہ سوشل میڈیا اور نہ ہی موبائل فونز۔
اس دورمیں صحافت پر مارشل لاء کا قدغن لگ چکا تھا دنیا میں پاکستان وہ واحد ملک تھا جہاں صحافیوں کو کوڑے مارنے کی سزا دی گئی تھی،
زمانہ بدل رہا تھا۔ صحافت و مکتب ’میڈیا اسٹڈیز‘، ’کیمونیکیشن اسٹڈیز‘ یا ‘ڈویلپمنٹ کیمونیکیشن‘ جیسے جدید نام ایم اے صحافت کے چار سالہ پروگرام کو ہی ‘ لکھا، پکارا اور سمجھا جائے لگا تھا
صحافت اخبار، فلم ، ریڈیو، سے نکل کر بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی سے رنگین ڈیجیٹل میڈیا پر اپنے تمام تر لوازمات سمیت شفٹ ہوتی چلی جارہی تھی، اور جس طرح دنیا تیزی سے بدل رہی تھی ماضی کے مقابلے میں موجودہ دور کی صحافت میں بہت واضع فرق نظر آتا جا آرہا تھا ، ڈیجیٹل میڈیا سے پہلے جتنے بھی میڈیم موجود تھے وہ صحافت کے وجود کے لیے خطرہ نہیں تھے۔ صحافی ہی خبر اور تجزیہ کا مالک ہوتا تھا۔ ’ایکسکلوزو‘ یا ’سکوپ‘ دینا کلی طور پہ صحافی کا اختیار ہوتا تھا۔ مگر ڈیجیٹل میڈیا صحافی سے یہ انفرادیت چھینتا چلا جارہا تھا ، ایک ہی جلسے کی کوریج کرتے وقت ایک پیشہ ور صحافی سے زیادہ ساتھ کھڑا لڑکا، جو کسی صحافتی ادارے سے وابستہ نہ ہونے کے باوجود انفرادی طور پہ کسی سوشل میڈیا ایپلیکیشن پہ اپنے اکاؤنٹ سے کوور کر رہا ہوتا اس کے لائکس یا شئیرز زیادہ ہوتے ، یعنی اس کی خبر زیادہ لوگوں تک پہنچ رہی ہوتی اور پیشہ ور صحافی کی نسبت زیادہ لوگوں پہ اثر انداز ہو رہا ہوتا ، اسے کسی ایڈیٹر، ڈائریکٹر نیوز یا پیمرا کی پروا بھی نہیں تھی۔ کیوںکہ پاکستان میں اس کے لیے کوئی قانون بنانے کی زحمت نہیں کی گئی تھی ، اس کی وجہ یہ تھی کہ کوئی خبر ؤ اطلاع یآ رائے سازی کسی خاص ادارے کے کنٹرول میں نہیں ہوسکتی تھی
کیونکہ خبر کیسے کسی کی ملکیت ہو سکتی ہے۔ آئین تمام شہریوں کو اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے نہ کہ صرف صحافیوں کو ایک اور فرق یہ سامنے آیا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے آنے سے پہلے صحافیوں کو خبر کے ردعمل کی پروا نہیں ہوتی تھی کیوں کہ عوامی ردعمل کا کوئی طریقہ کار نہیں تھا اور خط بنام مدیر یا لیٹر ٹو ایڈیٹر میں تنقید چھاپنے کا رواج ذرا کم ہی تھا۔ اب توادھر آپ ٹویٹ کرتے ہیں ادھر کمنٹس میں آپ کا حساب برابر کر دیا جاتا ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا سے پہلے کے میڈیا کو بہت زعم تھا کہ عوام کی رائے سازی انہی کا اختیار ہے۔ اب تو ہر شخص کے پاس میڈیم ہے۔ کیمرہ ہے، جگہ ہے، لوگوں تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ سو رائے پہ اثر انداز ہونا اب صرف پیشہ ور صحافیوں کا ہی فن نہیں رہا۔ صحافی کسی بڑے سیاسی لیڈر کو مین اسٹریم میڈیا سے بین کروا دیں مگر اس کی مقبولیت میں فرق نہیں آیے گا ۔ لہٰذا اس نئے میڈیم نے پیشہ ورانہ صحافت کا دھندہ تقریبا لپیٹ دیا ۔ وہ صحافی تو بقا پا جائیں گے جنہوں نے خود کو نئی ٹیکنالوجی کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ یو ٹیوبرز، پاڈ کاسٹرز، وی لاگرز، ٹک ٹاکرز، اسٹینڈ اپ کامیڈینز نہ صرف سیاسی شخصیات کے انٹرویوز کرتے ہیں بلکہ سیاسی معاملات پہ اپنی رائے بھی دیتے ہیں۔
ان کو دیکھنے اور سننے والوں کی تعداد عام صحافی سے زیادہ ہے۔ جب کہ ان میں سے اکثریت کا کوئی صحافتی پس منظر نہیں ہوتا۔ وہ معمولی تعلیم یافتہ ہیں یعنی اب عوامی رائے پہ اثر انداز ہونے کی اجارہ داری صرف پیشہ ور صحافیوں کے پاس نہیں رہی بلکہ وہ جو کبھی سامعین، قارئین، ناظرین ہوا کرتے تھے وہ اب نہیں رہے۔ اور یہ سب لوگ خبر یا تجزیہ کے مجوزہ اصولوں کی بالکل پروا نہیں کرتے ہیں۔ انہیں یہ صحافتی بے راہ روی کی راہ مین اسٹریم میڈیا کے لوگوں نے ہی دکھائی ہے۔ جب بڑے چینلز، اخبارات اور صحافی سیاسی جماعتوں یا سیاسی لیڈروں کے بیانیہ کے وکیل بن جائیں گے تو ان غیر تربیت یافتہ صحافیوں کو کون روک سکتا ہے۔ صحافتی اقدار میں غیر جانبداری کے اصول کے پہلے قاتل بڑے بڑے میڈیا گروپ ہیں۔ اب وہ یہ گلہ نہیں کر سکتے کہ ڈیجیٹل میڈیا کے لوگ غیر پیشہ وارانہ ہیں۔ وہ آپ کے پریس کلب کے ممبر نہیں ہیں۔ جنہیں کبھی پریس کلب میں گھسنے نہیں دیا گیا اسی طرح ڈیجیٹل میڈیا کے لوگوں نے بھی صحافیوں پر گیٹ بند کر دیئے ہیں۔ اور ہاں پیگا کے قانون کی زرد میں بھی پیشہ ور صحافی آئیں گے، کیون؟؟ کیونکہ صحافت کے اس پرخطر سفر میں صحافیوں نے کبھی اپنی شناخت کے لیے کوئی کام نہیں کیا ؟؟ جس طرح ڈاکٹر کا سفید گون، وکیل، کا کلاکوٹ انجینیر، کی نیلی ڈھانگری ان کی شناخت ہے ، مگر ان سب کے برابر تعلیم ہونے کے باوجود صحافی کی سناحت کا کوئی لباس نہیں پاکستان کے تمام پریس کلبوں میں رنگ برنگی لباس میں پتہ ہی نہیں چلتا کہ ان میں چوتھا ستون کون سا ہے؟؟