بلوچستان سے لیکر گلگت بلتستان تک نوجوان مثبت سرگرمیوں کیساتھ منسلک

قارئین کرام بلوچستان اور گلگت بلتستان میں اس وقت صحتمندانہ سرگرمیاں عروج پر ہیں، جہاں کے نوجوان قومی امن اور خوشحالی کے فروغ میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔ یہ مواقع مختلف سرکاری اداروں کی جانب سے فراہم کیں جارہے ہیں نہ صرف بلکہ چست و مستعید نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت بھی ان صحتمندانہ سرگرمیوں کے ساتھ منسلک ہوکر قومی تشخص میں اضافہ کر رہیں ہیں۔ یہ نوجوان اب بلوچستان میں جس طرح سیاسی منافرت سے تنگ آچکے ہیں اسی طرح سے گلگت بلتستان میں بھی منافرت اور تقسیم پر مبنی سیاست سے یہ نوجوان مایوس ہوچکے ہیں۔ نوجوانوں کا ان سرگرمیوں کے ساتھ منسلک ہونے سے منشیات کی روک تھام میں مدد ملنے اور بے راہروی میں کمی کے ساتھ انکے اضطرابی کیفیت میں بھی کمی ہوگی۔ ان عوامل میں کمی کی وجہ سے نوجوانوں میں چھپی بے شمار خداد صلاحیتیں ابھر کر سامنے ائیگی جو روشن مستقبل کی ضمانت ثابت ہوگی۔

اس وقت ملک میں مجموعی صورتحال کا بیشتر حصہ سیاسی انتشار سے مغلوب ہے، جہاں یہ سلسلہ سیاستدانوں کے ذاتی، گروہی یا پھر پارٹی مفادات سے شروع ہوتے ہوئے بیوروکریسی کی پیچیدگیوں سے مزین ہوکر، عدلیہ کی کھینچا تانی میں پھنس کر بھی یہ مفادات تکمیلی مراحل تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔ مگر کیا وجہ ہے کہ عوامی مفادات کی تکمیل ناممکن نظر اتی ہے۔ اس وقت سیاستدان چاہیے حکومت میں ہو یا پھر اختلاف میں ہو سب کے لئے انکے مفادات عزیز تو ہیں مگر عوامی مفادات کا انکے لئے کوئی اہمیت نہیں۔ اس وقت عوام کی نظریں عدلیہ پر مرکوز ہے کہ شاید عدلیہ عوام کو اس اضطرابی کیفیت سے نکال دیں مگر وہاں بھی مفاد عامہ کے کیسز دب کر رہ گیئں اور آج کل تو سیاسی کیسز کی کاروائیاں براہراست نشر کیں جانے لگے۔ ایک وقت تھا جب کوئی کیس اگر عدالت میں زیر التوا ہو تو اس پر کوئی بھی شخص بات کرنے کے بجائے “معاملہ عدالت میں ہے” کا کہہ کر مزید بات کرنے سے رہ جاتا۔ مگر اس کے برعکس آج کل کے تمام معاملات عدالت میں چلنے کے باوجود اس پر براہراست ٹی وی چینلز پر قیاس آرائیاں کی جاتی ہے۔ کوئی بھی ٹی وی نیوز چینل اٹھاکر دیکھئے وہاں آپ کو سیاست برائے مفادات کی تکمیل، عدالت برائے سیاسی مداخلت یا پھر سیاست برائے عدالتی مداخلت ہی دیکھیں گے۔ اصل مقصد مفادات کی تکمیل ہوتی ہے جسے دکھایا کچھ اسطرح سے جاتا ہے کہ جیسے یہاں قومی اور عوامی مفادات حاصل و مقصود ہو۔ اسی وجہ سے عوام کا موجودہ نظام پر سے اعتماد ختم ہوچکا ہے۔ عوام سیاسی ناروں، ایجنڈوں، منشوروں، دروغگو لیڈران اور انکے ان تمام جالوں کو سمجھ چکے ہیں۔ اسی لئے نوجوان جو اس ملک کا اکثریتی طبقہ ہے نے ان سب کو رد و کدھ کر کے رکھتے ہوئے اپنے رجحانات کے رخ کا تعین صحتمندانہ سرگرمیوں کی طرف کر دیا ہیں۔

بلوچستان کے مختلف اضلاع میں بلوچ نوجوانوں کے لیے تعمیری اور مثبت سرگرمیوں کے انعقاد کا سلسلہ جاری رہتے ہوئے اپریل کے مہینے میں نوشکی، بارخان، کیچ اور پنجگور میں فٹبال کے 6 میچز کا انعقاد کیا گیا جن میں 800 افراد نے بڑھ چڑھ کر شرکت کی۔ نوشکی اور اواران میں کرکٹ کے 7 مقابلے منعقد کیے گئے جن میں 720 افراد شریک ہوئے۔ لسبیلہ، اواران اور پنجگور میں فٹسال کے 9 مقابلے منعقد ہوئے جن سے 860 افراد محظوظ ہوئے۔موسیٰ خیل میں ایک والی بال میچ کا انعقاد کیا گیا جس میں 200 سے زائد افراد نے شرکت کی۔ لسبیلہ میں ایک سپورٹس فیسٹیول کا انعقاد ہوا جس میں 100 سے زائد افراد شریک ہوئے۔ حب میں ایک تقریری مقابلے کا انعقاد ہوا جس میں 80 سے زائد طلباء نے شرکت کی۔ خضدار اور خاران میں عید کی مناسبت سے شہدا کے خاندانوں کی مالی امداد کی گئی۔ خاران میں ایسٹر کی تقریب میں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے 25 افراد نے مذہبی جوش و خروش کے ساتھ شرکت کی۔

بلوچستان میں نوجوانوں کے لئے مثبت سرگرمیاں حسب روایت زور و شور سے جاری رہتے ہوئے مئی کے مہینے میں ان سرگرمیوں پر اگر نظر دہرائی جائے تو زیارت، سوراب، خضدار، اور کوہلو میں فٹ بال کے چار ٹورنامنٹ منعقد کیے گئے جنہیں 650 سے زائد لوگوں نے دیکھنے کے ساتھ اپنے اپنے ٹیموں کو بھرپور سپورٹ کیا۔ خضدار اور دالبندین میں فٹ بال کے تین ٹورنامنٹس کا انعقاد کیا گیا جنہیں 250 سے زائد لوگوں نے دیکھا۔ دالبندین، کیچ اور ژوب میں کرکٹ کے سات ٹورنامنٹ منعقد کیے گئے جنہیں 850 سے زائد لوگوں نے دیکھا اور انمیچز سے خوب لطف اندوز ہوئے۔ خضدار اور دالبندین میں پانچ کرکٹ ٹورنامنٹس کا انعقاد کیا گیا جہاں 600 سے زائد تماشائیوں نے خوب سما باندھتے ہوئے اپنے ٹیموں اور کھلاڑیوں کی داد رسی کی۔ بلوچستان میں ایک وقت تھا جب نوجوان ان صحتمندانہ سرگرمیوں سے کوسوں دور تھیں، جبکہ سیاست تعصب، قوم پرستی پر مبنی تفرقات، غربت، بے روزگاری وغیرہ نے ان نوجوانوں کو مشغول عبس رکھا تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ جب یہ نوجوان ان مخدوش صورتحال کو پرکھنے لگے، پرکھ کر سمجھنے لگے تو نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت نکل کر کھیلوں کے ویران میدانوں کو پھر سے آباد کرنے لگے۔ دن تو دن اب تو رات کو بھی یہ نوجوان مثبت سرگرمیوں کے ساتھ منسلک ہونے لگے۔ اسی لئے دالبندین میں دو نائٹ فٹسال میچ کھیلے گئے جنہیں 100 سے زائد لوگوں نے دیکھا اور انجوائے کیا۔ لورالائی میں ٹگ آف وار مقابلہ ہوا جہاں ان مقابلوں میں سینکڑوں مقامی افراد نے شرکت کی۔ لسبیلہ، بارخان، لورالائی، اور حب میں چار تقریری مقابلوں کا انعقاد کیا گیا جن میں 400 سے زائد طلباء نے حصہ لیا۔ کوہلو میں “یوم مزدور” اور “معاشرے میں بدعنوانی اور منشیات کی لعنت” پر دو لیکچرز منعقد ہوئے جن میں 200 سے زائد افراد نے شرکت کی۔ گوادر میں دو دختران پاکستان تقریری پروگرام منعقد کیے گئے جن میں 350 سے زائد افراد نے شرکت کی۔ بارخان میں پاکستان کی تاریخ کے حوالے سے تقریب تقسیم انعامات کا انعقاد کیا گیا جس میں 400 سے زائد افراد نے شرکت کی، اسی طرح بارخان میں فری آئی میڈیکل کیمپ کا انعقاد بھی کیا گیا جس میں 60 سے زائد مریضوں کا معائنہ کیا گیا۔ تفتان میں فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیا گیا جس میں 50 سے زائد مریضوں کا معائنہ کیا گیا۔ ضلع نوشکی میں منشیات کے خلاف آگاہی مہم کا انعقاد کیا گیا، چمن میں فلڈ ریلیف کیمپ کا انعقاد کیا گیا، تربت میں کیڈٹ کالج کی طالبات کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کا انعقاد کیا گیا، 9 مئی کے روز شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے بلوچستان بھر میں کل 103 تقریبات اور شہدا کے قبرستانوں میں پھولوں کی چادر چڑھانے کی متعدد تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ کوئٹہ میں “شہداء خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کنونشن” کے عنوان سے مرکزی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اجتماعی طور پر، تقریباً 120,000 افراد نے تقریبات میں شرکت کی۔ بلوچستان کے اضلاع خاران، ہرنائی اور نوشکی میں “عظیم طاقتوں کا مقابلہ: پاکستان کے لیے چیلنجز اور مواقع” اور “خواتین کو بااختیار بنانے” کے عنوانات پر سیمینار منعقد ہوئے جن سیمینار میں 450 سے زائد افراد نے شرکت کی۔

گلگت بلتستان میں جاری ان مثبت سرگرمیوں پر اگر بات کی جائے تو سکردو، غذر اور گلگت میں تین جشن بہاراں پولو اور فٹ بال ٹورنامنٹس کا انعقاد کیا گیا۔ گلگت میں سیفٹی کی آگاہی کے سیشن کا انعقاد کیا گیا۔ اسی طرح ان مثبت سرگرمیوں کو دوام دیتے ہوئے گلگت اور گانچھے میں دو سکولوں کا افتتاح کر دیا گیا۔ سکردو میں جاب فیئر کا انعقاد کیا گیا۔ خرمنگ میں شاہی قلعہ کی بحالی کے کام کا افتتاح کر دیا گیا۔ ڈسٹرکٹ استور میں چار افتتاحی تقریبات (2 میونسپل لائبریریز اور 2 فوجی ہسپتال) کا انعقاد بھی ان سرگرمیوں میں شامل ہیں۔ گلگت میں واخی کلچرل میوزک فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا جہاں سینکڑوں افراد نے شرکت کرتے ہوئے سماں باندھ دیا۔ گلگت میں صفائی کے مہم کا انعقاد کیا گیا۔ خرمنگ میں حفظان صحت سے متعلق آگاہی مہم کا انعقاد کیا گیا۔ گانھچے، شگر اور گلگت، جی بی میں تین جشن بہاراں پولو ٹورنامنٹس کا انعقاد کیا گیا۔ یہ صحتمندانہ سرگرمیاں جاری رہتے ہوئے غذر میں فٹ بال کے دو ٹورنامنٹ منعقد ہوئے اسکے ساتھ غذر میں قرات و نعت کے مقابلوں کا بھی انعقاد کیا گیا۔ نگر میں 30 بستروں پر مشتمل فری میڈیکل کیمپ کا اہتمام کیا گیا۔ غذر میں خواتین کو بااختیار بنانے پر ایک ڈائیلاگ سیشن کا انعقاد کیا گیا۔ گلگت میں “ثانوی تعلیم کی کوالٹی ایشورنس اور بورڈز کا کردار” کے موضوع پر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ ہنزہ میں سکالر شپ دینے کی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ ہنزہ میں پاکستان کے اکنامک ٹورازم کے حوالے سے آگاہی سیمینار کا بھی انعقاد ہوا۔ گانچھے میں منشیات سے بچاؤ کے لیے آگاہی واک کا انعقاد کیا گیا۔ گلگت میں گوگل کیرئیر سرٹیفکیٹ سکالرشپ پروگرام کی افتتاحی تقریب کا اہتمام ہوا۔ ملک کے مختلف علاقوں کے نوجوانوں کو اس طرح کی مثبت اور صحت مند سرگرمیاں میسر ہونے سے ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں مدد مل رہی ہے ان سرگرمیوں کی وجہ سے نوجوان قومی دھارے میں شامل ہو کر پاکستان کی تعمیر و ترقی کیلئے فعال شہری ثابت ہو رہے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *