مندر، مسجد اور گردوارہ

تحریر۔گل باز مشتاق

اسلام آباد بری امام سرکار کے نور پور سے شروع ہوتا ہے اور اقتدار کے ایوانوں سے گزر کر اشرافیہ کے رہائشی سیکٹروں تک پہنچتا ہے۔ یہاں سے یہ مڈل کلاس اور سرکاری ملازموں کے سیکٹروں سے گھوم کر گولڑہ شریف جا ختم ہوتا ہے۔ سالوں پہلے جب ابھی اس علاقے نے بپتسمہ نہیں لیا تھا اور ڈوکیڈیس نے یہ شہر نقشے سے اتار کر زمین پر نہیں پھیلایا تھا تو یہاں کئی چھوٹے چھوٹے گاؤں آباد تھے۔ گکھڑوں، راجپوتوں اور ملہاروں کا یہ علاقہ تب راول، سیدپور اور گولڑہ کے مندروں کی تکون میں گھرا ہوا تھا۔

اسلام آباد سے صفر کلو میٹر دور سید پور گاؤں خاموشی سے دامن کوہ کے قریب مار گلہ پہاڑی کی ڈھلوان پر بیٹھا ہوا ہے۔ لگ بھگ پانچ صدیاں ادھر 1530 میں مرزا فتح علی نے اس کی بنیاد ڈالی تو اس کا نام فتح پور باؤلی رکھا گیا۔ ہندوستان سے مغلوں کو شیر شاہ سوری کے ہاتھوں دیس نکالا ملا تو یہاں کے گکھڑوں نے اپنی وفاداریاں نہ بدلیں۔ ہمایوں اس وفاداری کا صلہ دینے کے لیے زندہ نہ رہا لیکن بیٹے نے باپ کا قرض اتارا اور ہمارے پیارے اکبر بادشاہ نے یہ گاؤں سلطان سید خاں گکھڑ کو ہمارے ہر دلعزیز شیرشاہ سوری کے خلاف ڈٹے رہنے کی خدمات کے عوض دان کر دیا۔ یوں فتح پور باؤلی سید پور ہو گیا۔ سید خاں گکھڑ سے یہ گاؤں اس کی بیٹی کی ملکیت میں آ گیا۔

تاریخ میں جس طرح اس گاؤں کی خوبصورتی کے حوالوں میں بہتی ندی، چشموں اور پھلوں کے باغات کا ذکر آتا ہے اس سے یہ ست یگ کے زمانے کی کوئی بستی معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے کہتے ہیں جس کا بھی اس بستی سے گزر ہوا وہ اسے دل دے بیٹھا۔ شہزادہ سلیم ابھی نور جہاں کی محبت میں گرفتار نہیں ہوا تھا، جب اس نے کابل کی مہم پر جاتے ہوئے اس گاؤں میں پڑاؤ ڈالا۔ یہ اس گاؤں کے حسن کا جادو تھا یا سیاسی مجبوری لیکن ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس نے سید خاں گکھڑ کی بیٹی سے شادی کی تھی۔ یوں جس حساب سے علامہ اقبال پاکستانی ہیں، ظل سبحانی نورالدین محمد سلیم جہانگیر اسلام آباد کے داماد ٹھہرے۔

اکبر کے مشہور رتن راجہ مان سنگھ نے بھی اس گاؤں میں قیام کیا تھا۔ یہ 1580 کی بات ہے۔ جیسا اس وقت کے راجوں مہاراجوں کا وتیرہ ہوتا تھا، اپنے اس قیام کو یادگار بنانے کے لیے مان سنگھ نے یہاں ایک دھرم شالہ، چار تالاب کچھ عمارتیں بنوائیں۔ یہ ان تالابوں کا نام رامائن کے کرداروں رام، سیتا، لکشمن اور ہنومان کے ناموں پہ ہونا تھا یا خود تالابوں کا وجود لیکن اس کے بعد سیدپور کی طرف خطے کے ہندوؤں کا سفر یاترا بن گیا۔

گاؤں میں ایک بڑے دروازے سے داخل ہوں تو ساتھ ساتھ آرٹ اینڈ کرافٹ کی چند دکانیں آتی ہیں۔ اس سے ذرہ آگے تین گنبدوں والی قدیم مسجد ہے۔ یہ مسجد کب تعمیر ہوئی معلوم نہیں، لیکن گاؤں کے بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ تقسیم سے پہلے یہ مسجد موجود تھی۔ مسجد کے پرانے گنبد آج بھی قائم ہیں لیکن اہل ایمان نے جگہ کم پڑ جانے کی وجہ سے پرانی مسجد کے ساتھ نیا ہال تعمیر کر لیا ہے۔ مسجد کے آگے چھوٹا سا میدان ہے جو پارکنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ پارکنگ لاٹ کے پار ایک چھوٹا سا احاطہ ہے جس میں دو منزلہ عمارت مان سنگھ کی دھرم شالہ ہے۔

اس احاطہ میں دھرم شالہ کے علاوہ جامن کے پیڑ کے سائے تلے جھانسی دیوی کا مندر ہے۔ مقامی لوگ اس مندر کی تعمیر بھی راجہ مان سنگھ کی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن ضلع راولپنڈی کا 1894 کا گزٹ کچھ اور روایت بیان کرتا ہے۔ اس گزٹ کے مطابق یہ مندر اس وقت لگ بھگ سو سال پہلے تعمیر ہوا تھا۔ یوں تو سارا سال ہی اردگرد کے علاقوں سے سیدپور یاترا جاری رہتی تھی لیکن بیساکھی پنجابیوں کے لیے گیہوں کے پکنے اور خوشحالی کا سندیسہ لاتی سو انگریز کے گزٹ کے مطابق ہر سال بیساکھی پر سیدپور میں ایک میلہ ہوتا تھا۔ پھر پاک سر زمین معرض وجود میں آ گئی۔ گاؤں کے ہندو ہجرت کر گئے اور جاتے جاتے لکشمی اور کالی دیوی کی پیتل کی مورتیاں بھی ساتھ لے گئے۔ تالاب بٹوارے سے پہلے ہی وقت کی گرد میں دب گئے تھے۔ تقسیم کے وقت صرف رام نام کا تالاب (رام کنڈ) موجود تھا۔ پھر جب ”رام“ کو ہی دیس نکالا مل گیا تو تالاب بھی غائب ہو گیا۔ آج گاؤں پر دیس پردیس، ڈیرہ پختون، انداز اور دوسرے مہنگے ریستورانوں کا قبضہ ہے۔ مندر کا چبوترہ اور صحن جہاں کبھی اونچی ذات کے ہندو پرساد بانٹتے تھے اب برائیڈل فوٹو شوٹ اور ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور جھانسی دیوی کا مندر ہر آنے والے کے ساتھ سیلفی لینے کے لیے تیار کھڑا رہتا ہے۔ رہ گئی بات بیساکھی کی تو اسے ہم نے دائرہ اسلام سے خارج کر دیا ہے۔

‎جھانسی مندر کے سامنے سنہری محرابوں والی ایک عمارت ہے۔ جو کبھی گرودوارہ ہوا کرتا تھا۔ خیال ہے کہ اس کی تعمیر پچھلی صدی کے اوائل میں ہوئی۔ اس کے ساتھ ایک بڑے سائز کا کمرہ ہے جو کبھی سکھ مدرسہ ہوا کرتا تھا۔ بٹوارہ ہوا تو یہاں گرلز سکول کھل گیا اور دو قومی نظریے کی تعلیم دی جانے لگی۔ 2006 میں گاؤں کو سرکاری طور پر سیاحتی مقام کا درجہ دے دیا گیا۔ سرکار نے یہاں سکول بند کر دیا اور اسلام آباد کی نقشے سے زمین پر بچھنے کے عمل کی تصویریں ٹانگ دیں۔

گرودوارے کے عقب سے پہاڑی پر چڑھ جائیں تو عین اوپر زندہ پیر کی بیٹھک ہے۔ جس کے ساتھ ہی مائی فقیرن کا مزار ہے جس نے اپنی زندگی اس بیٹھک کہ خدمت میں تیاگ دی تھی۔ اب مندر میں پجاری کی گھنٹی بجتی ہے نہ گرودوارہ میں گرنتھ صاحب کا گیان جپتا ہے، لیکن زندہ پیر کی بیٹھک پر منتیں مانی جاتی ہیں۔ عقیدت مند زندہ پیر کی بیٹھک پر چراغ روشن کرتے ہیں تو ایک دیا مائی جی کی قبر پر بھی جلا جاتے ہیں۔

گاؤں کا ایک حوالہ یہاں کے کمہار ہیں۔ مٹی کے برتن اور کھلونے بنانے میں پورے خطے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اسی نسبت سے سید پور کبھی کمہاروں کا گاؤں بھی کہلاتا تھا۔ لیکن یہ گئے وقتوں کی بات ہے۔ مٹی کے برتن اب صرف سجاوٹ کے کام آتے ہیں اور بچوں کا دل بہلانے کے لیے گیجٹس ہیں۔ اس دم توڑتی روایت سے مگر نیاز احمد اپنی چھ نسلوں کی شناخت کا بوجھ اٹھائے ابھی تک جڑا ہے۔ جو ہر آنے والے کو بڑے فخر سے مٹی کی بنی کھلونا ریل دکھاتا ہے جو اس کے پرکھوں نے سو سال پہلے بنائی تھی۔ ہمارے ہاں روایتیں ختم کرنے کا رجحان ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ نیاز احمد کی اگلی نسل اس روایت کا گلا گھونٹ دے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *